ایمحرسٹ کالج میں انگریزی کے استاد بینیگنو سینچز ایپلر مُتعدد زُبانیں بولنے کے دو نِساب پڑھاتے ہیں: “لانجویج کراسنگ اینڈ لائیونگ ان ترانسلاشن” اور “ملٹی لینگویل گیم.”

اُن طالبِ علموں کا گروپ جنہوں نے خصوصی نِصابی موضوع “ملٹی لینگویل گیم” میں حصہ لیا، وہ پہلے سے اپنے کمتر سمجھے جانے والے گھر اور اپنی مادری زُبان کے ساتھ زندگی گزارنے کے خدشات میں مبتلا تھے۔ تمام طالب علم کے مختلف خیالات مل کر ملٹی لینگویلیسم کے مسائل کو امحیرست کیمپس پر سامنے لائے۔

بینیگنو سینچز- ایپلر کی یہ اِقتباس اُنکی ان وجوہات پہ روشنی ڈالتا ہے جو اُنکی اِن نِصابوں کو تخلیق کرنے کی وجہ بنی اور کس طرح ایمحرسٹ کالج اپنےآپ کو ایک ملٹی لینگویل اِدارے کے طور پہ تیار کر سکتا ہے۔


مجھے ۲۰۱۵ پہلے سال کے سیمینار “زبانوں کا تبدیل کرنا اور ترجمے میں زندگی گزارنا” کی فوری ضرورت اپنے ہی زبان تبدیل کرنے سے محسوس ہوئی: ایک ترجمہ کرنے والے کی حیصیت سے اور ایک ثقافتی ثالثی ہونے کے ناطے میرے اپنے خدشات اور کامیابیاں تھیں: ایک انسان جو بہت مختلف ہونے کی وجہ سے مشکل میں تھا۔ ایک ایسا وقت بھی تھا جب میرے پڑھائی کے دوران کسی بھی طرح مجھے نہیں لگا کے میری مادری زُبان میرے لیئے ایک خزانہ ہے۔ اسی لیئے ایبحرسٹ میں مینے ایک ایسا نصاب تخلیق کیا جس میں دو زُبانیں بولنے والے طالبِ علموں کو یہ اِحساس دلایا جاتا تھا کے اُنکی مادری زُبان اُنکے لیئے ایک قیمتی خزانہ ہے، اور یہ کے وہ متضاد جزبات رکھنے اور شاید یکساں ہونے کے دباؤ اور لاسانیٔت کے کچلے جانے سے متنازع اور اُداس ہونے والے، اکیلے نہیں ہیں۔ ایک وقت ایا جب میری خود کی کامیابی کیلئے، فائدہ مند، طاقتور انگریزی ایک معیار بن گئی جسکو میں اپنی پیاری مادری زبان کو کم تر سمجھنے اور رد کرنے کیلئے استمعال کر رہا تھا اور مینے انگریزی کے حصول پہ توجہ ڈالنے کیلئے اِسکو ایک طرف رکھ دیا تھا۔ اِس لیے ایمحرسٹ میں مینے ایک ایسا نِصاب بنایا جس میں ہم نے اپنی زبان کی قدر نا کرنے کے بارے میں بات کی، اور ایسے طالب علموں کو دعوت دی جو اُسی طرح کے حالات کی آزمائش سے گزر رہے تھے۔

ایک وقت آیا جب میرے ایک زُبان بولنے والے دوستوں کومیری بڑھتی ہوئی خوشی اور مایوسی کا بِلکُل بھی اندازہ نہیں تھا، وہ خوشی ، جو مجھے اس زبان سے حاصل ہوتی تھی جو زُبان ہمیشہ سے اُنکی تھی اور ابھی تک میری نہیں ہوئی تھی. وہ ابھی تک اِس بات کا اندازاہ نہیں لگا پائے تھے کے کیؤں مجھے بولنے میں بہت مشکِل ہوتی تھی، اور پِھر بھی میں انگریزی کے لاتین ریجسٹر کے طویل ترین اور نایاب الفاظ میں ماہِر ہوں۔ تو اسی لیے میں نے ایسا نِصاب بنایا اکہ صرف انگریزی بولنے والے مختلف زبانوں کی اہمیت کو سمجھ سکیں.

لاتینی طالبِ علموں اور اُن کے والدین سے بات کر کے مجھے انداذہ ہو جاتا ہے کے وہ ہمارے نصاب میں کس طرح حصه لے کر اُسے بہتر بنا سکتے ہیں. اُن کو یہ بتانے کے بعد کے کیسے اُنکی ثقافتی مُداخلت اُس نِصاب کو ذرخیز کریگی، یہ کہنے میں زیادہ آسانی ہو جاتی ہے کے وہ اب امحیرست کے مہمان نہیں ہیں، وہ خود امحیرست ہیں، اور وہ اِس جگہ پر پوری دُنیا کی میزبانی کر سکتے ہیں.

کالج کے “نِصاب کی عالمگیریت” کے لیےضروری ہے کے نصاب میں دوسرے ملکوں کے بارے میں بھی پڑھایا جائے، اِس کے ساتھ غیر مُلکی زبانوں کی مہارت حاصل کرنے پرزور دیا جائے، اور اپنے زیادہ سے زیادہ طالبِ علموں کو دور عمیق تجربات کی کھوج میں بیرونِ ملک بھیجا جائے۔ لیکِن ہمیں اپنے ارکانِ شعبہ اور طالبِ علموں کے کثیر ثقافتی اور مختلِف ثقافتی دخلیات کو اِستعمال میں لانا ہوگا۔ ہمیں وہ طریقہِ کار ڈھوڈنے ہونگے جن سے ہم اپنی توجہ اُن تحائف، مہارت، ہنر، اور مادری زبانوں کے اُوپر مرکوز کریں جو ہمارے شاگرد پہلے سے ہی اپنے ساتھ  یہاں لیکر آتے ہیں۔ جب آس پاس کی ثقافتی اور نصابی ترجیحات طالبِ علموں کے اندرونی سامان کی توثیق نہیں کرتی، تب یہ خزانہ ترکِ استمعال اور تاخیر کی وجہ سے گلنا سڑنا شروع ہو جاتا ہے۔

آج کل کے طالبِ علموں کے مختلف پس منظر میرے پڑهانے کی ساخت کیلیے بہت فائدہ مند ثابت ہوئے ہیں اور ہمارے شاگردوں کی مہارت اور ہنرنے نِصاب کو بہت بہتر بنا دیا ہے جس سے ہم سب اور یہ خود بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں. مجھے یاد ہے وہ جماعتیں جو میں نے ولیمز کالج میں ۱۹۷۰ میں لی تھیں، جب شاگِرد کوئی ذہانت کی بات کرتے تھے تو اُستاد خوشی سے “ذہن کے کھل جانے” کا جشن مناتے تھے۔ مینے یہی کچھ ایمحرسٹ کی کثیر ثقافتی اور زبردست کلاس رومز میں بهی دیکھا۔

میں شکر گزار رہتا ہوں کہ مجھے اُن سیکھنے والوں کے ساتھ رہنےکا موقع مل رہا ہے جو ایسی منزل کے حصول میں ہیں جو سچی ہے اور صرف اور صرف ان کی ہے۔

بینیگنو سینچز- ایپلر
انگریزی کے استاد

 

 

Translator’s Note by Saad Baloch ’20

It has been a privilege and pleasure to work with this piece. It was challenging to translate because some of the words just do not have an accurate Urdu translation. Translation of words like multilingualism or phrases like “my own perils and triumphs as a translator and as a culture intermediary, a person straddling more than one otherness” do not do justice to the original piece. So I had to use 2-3 sentences to explain even one phrase so that it can be somewhat closer to the original. With this translation I hope it will reach out to wider audience, and more people will be able to connect with the story presented in this piece.


مترجم کے خیالات:

اِس آرْٹِیکَل پر کام کر کے مجھے بہت خوشی ہوئی. اِس کا ترجمہ کرنا کافی مشکل تھا کیونکہ کچھ الفاظ کا درست ترجمہ کرنا تقریباً نا ممکن ہے. ملٹی لینگویل اور باقی کچھ جملوں کا ترجمہ کرنا بہت مشکل تھا تو میں نے ایک لفظ کی جگہ دو تِین جملوں میں اس کا مطلب اردومیں سمجھانے کی کوشش کی ہے.

اِس ترجمے کے ساتھ میں یہ امید کرتا ہوں کے یہ آرْٹِیکَل زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں گے اور اِس کہانی اور اِس کے مصنف کی تعریف کریں گے .

 

 

 

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *