۵فروری 2018ء
من چینگ
دو زبانیں بولنے تک کا سفر

میں یقین کے ساتھ تو نہیں کہہ سکتی کے جو بات میں بیان کر رہی ہوں وہ ان لوگوں کے لیے ایک عام تجربہ ہے جو ایک زبان بولنے والے سے دو زبانیں بولنے والے بن گئے ہیں، لیکن میرے لیے، یہ وہ ایک لمحہ تھا جب مینے دریافت کیا کہ میں پوری طرح سے دو زبانیں بولنے والی بن گئی ہوں۔ اور یہ کچھ اِس طرح ہوا کہ: میں اپنے ایک دوست (جو مقامی انگریزی بولنے والا ہے) کے ساتھ کسی معمولی بات، جو کے اب مجھے یاد بھی نہیں، پر پُر جوش بحث کر رھی تھی، ایک دؔم سے، میں رُکی اور اپنے آپ سے مخاطب ہوئی اور میرا دوست مجھے سکتے کی حالت میں دیکھ کے اُلجھن کا شکار تھا: “مِن، کیا تمہیں پتا یے کہ تم ایک مقامی انگریزی بولنے والے کے ساتھ انگریزی میں بات کر رہی ہو! اور بحث کر رہی ہو! یہ کتنی دلچسپ بات ہے۔”

انگریزی زُبان کے ساتھ میرا ایک متنازعہ رشتہ ہونے کو نظر میں رکھتے ہوے مجھے اِس بات پہ یقین ہونا چاہیئے کے مجھے ایک بحث کے دوران یہ اِحساس ہوا کے میں دو زُبانیں بول سکتی ہوں۔

میں چین میں ہی پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہوں۔ اپنی زندگی کے اِبتدائی چوبیس سالوں تک میں نے چینی مینڈرین اور میرے آبائی شہر کی بولی کُنمِنگنیس ہی بولی ہے۔ مجھے انگریزی بہت پسند ہے۔ البتہ، کالج تک میرا کِسی مُقامی انگریزی بولنے والوں سے زیادہ مِلنا جُلنا نہیں رہا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے مُقامی انگریزی بولنے والوں سے میری پہلی مُلاقات صرف غلط فہمی اور غصے سے بھری ہوئی تھی۔ میرے ایک انگریزی کے اُستاد ہمارے کالج میں انگریزی پڑہانے کی اِس عارضی مُلازمت مِلنے سے پہلے پیشے سے صحافی تھے جو جورجییٔہ سے شنگہاِئی آئے تھے۔ تب اُنہوں نے جماعت کے دوران ہر مُمکِن طریقے سے ہماری ثقافت اور سیاست پر سوال اُٹھائے تھے اور چیلنج کیا تھا. میں اکثر اُن کی کلاس غصے، بے بسی اور غلط سمجھے جانے کے عالم میں چھوڑ دیتی تھی: اُنہوں نے کبھی ہمیں سمجھنے کے لیے چینی زُبان نہیں بولی، جب کے میری انگریزی اِتنی اچھی نہیں تھی کے میں اِس پیچیدہ ثقافت کے سِلسِلے کو اُس انداز میں سمجھا سکتی جو اُس کے دُنیاوی نظرِیات میں سمجھا جا سکتا ہو۔ میں اُن سے شِدت سے نفرت کرتی تھی اور مجھ سے انتظار نہیں ہو رہا تھا کے کب میں اپنی ہی ثقافتی حد کو بڑھاوں۔

گریجویشن کرنے کے کچھہ عرصے بعد میں ایک غیر مُلکی طالبِ علم کی حیثیت سے امریکہ آ گئ، شُروعات میں انگریزی پڑھی اور پِھر علمِ نفس میں منتقلی لے لی۔ جب میں شروع میں آئی تھی تو مجھے مُقامی لوگوں کی طرف سے اچھے اِرادے سے کہے گئے ستائشی جمعلے سننے کو مِلتے تھے: “ارے واہ تمہارے انگریزی تو بہت اچھی ہے”، شروعات میں مجھے خوشی محسوس ہوتی تھی، جلد ہی مجھے اِن ستائشی جملوں سے بیچینی ہونے لگی۔ مجھے یہ جاننے میں تھوڑا وقت لگا کے مجھے یہ جملے پریشان کیوں کرتے ہیں: کوئی بھی امریکی آسانی سے میری انگریزی بولنے کی مہارت کے مطعلق کوئی فیصلہ کر سکتا ہے لیکن میں کسی کے بارے کبھی کوئی نہیں کر سکتی۔ یہاں ایک کو دوسرے پے برتری حاصل ہے اور باہمی فائدے کی کوئی گنجائش نہیں ہے. گریجویٹ کی پڑھائی کرنے کے دوران میں نے اِس بات پے توجہ دی ہے کہ کیسے لوگ اکثر خوش بیانی کو زہانت اور اعتماد کو اہلیت کے برابر سمجھتے ہیں۔ میں نے اپنے گریجویٹ سکول میں مُقابلے میں بنے رہنے کیلئے اُن ثقافتی روایات میں اپنے آپ کو ڈھالنا سیکھ لیا جو میرے لیے مکمل طور پر اجنبی تھیں؛ اپنے اُستاد کے پوچھنے سے پہلے ہی اپنا ہاتھ کھڑا کر کے بولو؛ سوال پوچھو بے شک وہ احمقانہ ہی کیوں نہ لگیں؛ اپنے جواب تیار رکھو؛ تنقیدی سوچ رکھو؛ اور ثبقت لے جاؤ۔۔ معاملات بدتر بنانے کیلئے اُس میدان میں جہاں تاریخی طور پر یوروسینٹریزم غالِب تھا، اکثر پورے تربیتی پروگرام میں، میں واحد غیر مُلکی طالبِ علم تھی۔ میں نے اپنی منفرد شناختوں کو اپنے درخواست اور اِنٹرویوز میں بہت فائدہ مند پایا؛ البتہ، بعد میں، یہ سب شناخت اور اِس سے مُنسلِک تجربے کم ہی مخاطب کیئے جاتے ہیں۔ اس اِدارے کے مرکزی طریقوں کو سیکھنے اورعمل کرنے کا ضروری اور فوری دباؤ محسوس ہوا۔ اپنے گریجویٹ کرنے کے دوران، میں اپنے آپ کو دوسرے مقامی ساتھ پڑھنے والے طالبِ علموں کے مُقابلے میں پوشیدہ یا نا کافی اور کبھی کبھار دونوں ہی سمجھتی تھی۔ زیادہ تر اپنے گریجویٹ پیشے میں، میرے دو زبانیں بولنا اور ثقافتی ہونا، اور اُسکے ساتھ میرا چینی لہجہ اور چینی انداز میں سوچنا یا تو نظرانداز کر دیا جاتا تھا یا ایک کمی سمجھا جاتا تھا۔ میں کیسے کبھی امریکی لوگوں کا عِلاج اُنکی ہی مداری زبان میں کر پاؤںگی؟” “کیؤں کوئی مجھے کِسی مقامی انگریزی بولنے والے پے ترجیح دیگا، اگر ہماری جیسی ہی تربیت ہوئی تو؟” اکثر میں اپنے آپ سے یہی سوال پوچھتی تھی۔ یہی شک اور عدم تحفظ مجھے ڈاکٹریٹ کے ڈگری کرنے کی طرف لے گیا، بجائے اِسکے میں کوئی ملازمت کرتی، جیسے کے میرے دوسرے ماسٹرز کرنے والے ساتھی کر رہے تھے، مجھے انگریزی میں آسانی سے علاج کرنے میں تقریباً اور چار سے پانچ سال لگ گئے۔ اِس سے بھی زیادہ وقت مجھے یہ پہچاننے میں لگا کے دو زُبانیں بولنا اور دو ثقافتی ہونا ایک طاقت اور حکمت کا ذریعہ ہے۔

آج کل، اکثر اوقات یہ ایک غیرحقیقی اِحساس لگتا ہے کے میں ایک دو زبانیں بولنے والےتھیریپِسٹ کے طور پے ایمحرسٹ کالج کاؤنسلگ سنٹر، میں اِنتہائی وربل اور اِنتہائی زہین طالبِعلموں کے خدمت کر رہی ہوں۔ میں لگاتار اِس بات کا مشاہدہ کرتی ہوں کے کیسے میرے دو زبانیں بولنے اور دو ثقافتی ہونا ٹھوس اور اِہم طریقوں سے میرے کام پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار لگتا ہے کے مجھے خود بخود ایک زبان بولنے والے چینی پیرنٹ کیساتھ کام دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھار یہ حقیقت کے میں أصل میں چین سے ہوں، ایک تکلیف دہ یاد دہانی ہوتی ہے کے میرے اُن کلائنٹس کیلئے جو پہلے سے ہے ہجرت کرنے والے پیرنٹ سے مجروح ہو چکے ہیں۔

اکثر اوقات میرا غیرمُلکی شہری ہونا مجھے وہ سوالات پوچھنے کی زیادہ آزادی دیتا ہے جو ویسے پوچھتے ہوئے معیوب لگتے ہیں اور پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی، اِس طرح مجھے زیادہ معلومات مِل جاتی ہیں۔ کبھی کبھار یہ حقیقت کے میں ایک غیرمُلکی عورت ہوں جو چینی لہجے میں بات کرتی ہے، لوگوں کو میرا کام مسترد کرنے یا اُس کو حقارت سے دیکھنے کی وجہ بن جاتی ہے۔ میں اپنے دو زبانیں بولنے والے کلائنٹس کے ساتھ اکثر اوقات اِن زبانوں اور ثقافت سے نکل کر بات کرتی ہوں، اِنحصار کرتا ہے کے اُس وقت علاج کے لیئے کیا بہترہین طریقہ ہے۔ دو زبانیں بولنا اور دنیا کو دو مختلف نقطہِ نظر سے دیکھنا میرے لیئے ایک ایسے بہترہن تحفے ہیں جن کا کوئی مول نہیں، جیسے کے: علمی صلاحیت، ہمدردی، رواداری اور دوسری اِنسانیت کیلیے تجسسّ ہونا۔

میرے خیال میں میں نے آخر کارانگریزی زبان کے ساتھ سمجھوتا کر لیا ہے۔

 

Translator’s Note by Saad Baloch ’20

کافی مشکل تھا کیونکہ مجھے اِس چیز کا خیال بھی رکھنا تھا کے ترجمہے کے بعد بھی الفاظ اسی جذبے سے من کی کہانی سنائیں اور کوئی بات بھی اپنا أصل مطلب کھو نا دے. اسی لیے میں نے ہر لفظ کا با معنی ترجمہ کرنے کے بجائے پورے جملوں اور خیالات کا ترجمہ کیا ہے. اِس ترجمے کے ساتھ میں یہ امید کرتا ہوں کے یہ آرْٹِیکَل زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں گے اور اِس کہانی اور اِس کے مصنف کی تعریف کریں گے .


It has been a privilege and pleasure to work with such a heartfelt piece written by Min. It was challenging to translate it in such a way that it does not lose its true essence and still conveys the intended story. Sometimes the correct words lack the full subtlety of meaning or significance when translated from the original language to another, especially when done literally, so I tried to translate the ideas conveyed in the paragraphs, as opposed to carrying out word to word translation. For example, translating the sentence “I hated him with a passion” was hard to translate since the Urdu words for hate and passion cannot go together in one sentence! With this translation I hope it will reach out to wider audience, and more people will be able to connect with the story presented in this piece.

۵فروری 2018ء

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *