آپ کی تھراپسٹ ایک غیر مقامی اسپیکر اور حالیہ مہاجر ہیں۔ کیا آپ ان سے رجوع کریں گے؟

من چین، پی ایچ ڈی۔

کولمبیا ئونیورسٹی میں میرے مقالے کے دوران، کمیٹی کے ایک رکن نے ایک اہم سوال اٹھایا،”من،میرے ابو ایک
ضعیف شخص ھیں۔ وہ آپ سے، ایک نوجوان چینی خاتون سے،نفسیاتی علاج کے لیے رجوع کرنے سے انکار کردیں گے۔ آپ ایسی صورت حال میں کیا کریں گی؟” میں ایسی صورت حال میں کیا کروں گی؟ بھاگوں گی،چھپوں گی، اور کبھی لوٹ کر نہ آوں گی؟ حالانکہ اس نٖظریاتی پرواز سے کسی مزاح کا گمان ھوتا ھے، مگر میں یہ جانتی تھی کہ پروفیسر کا یہ سوال تلخ تو تھا مگر برحق بھی تھا۔اور اس سوال سے میں غیر شناسا نہ تھی: کیا ایک غیر مقامی اسپیکر، بالکل مختلف حالات اور ماحول میں پلی بڑھی، امریکیوں کو اعلیٰ معیار کا نفسیاتی علاج فراھم کر سکتی ھے؟ کیوں ایک ضعیف امریکی آدمی اپنے علاج کے لیے مجھ سے رجوع کرے گا؟ بلکہ کوئی بھی امریکی مجھ سے، ایک غیر مقامی شخص جس نے حال ھی میں اس ملک میں ھجرت کی ھو، اس سے اپنے طبی مسائل کے لیے رجوع کیوں کرے گا؟

حالانک مھاجروں کا بہترین انجینیر،ریاضی دان اور اکاونٹنٹ بننا بالکل بھی غیر معمولی بات نہیں، لیکن ایک ایسی زبان میں نفسیاتی مدد فراہم کرنا جس کے ساتھ آپ پلے بڑھے نہ ہوں، ایک الگ معاملہ ہے.جو بھی ہو،ایک تھراپسٹ کا واحد ھتھیار وہ خود ھوتی ھے: کلائنٹ کی کہانی کو اس کےثقافتی پسٍ منٖظر اور جذباتی پیچ و خم کے ساتھ سمجھنے کی صلاحیت، کلائنٹ کے ساتھ جذباتی سطح پر جلد از جلد منسلک ہونے کی صلاحیت، کلائنٹ کے مخمصوں کا احساس کرنے اور احتیاط سے منتخب کردہ طبی وصائل سے اسے یقین دہانی، دیکھ بھال اور رہنمائی فراہم کرنے کی صلاحیت۔ یہ تمام صلاحیتیں زبان پر عبور،اور اس معاملے میں انگریزی زبان پر عبور، پر کافی حد تک منحصر ہیں۔ اس مشکل سے ایک غیر مقامی تھراپسٹ کو اپنے بنیادی پیشہ ورانہ وجود پر تشویش لا حق ھوتی ھے: میں کیوں؟ میں یہاں کس مقصد کے لیے ہوں؟ میں کیا کرکے دکھا سکتی ہوں؟

غیر مقامی تھراپسٹ ہونے میں ایک بنیادی مشکل دوسروں کی مدد کرنے اور خود مدد کی ٖطالب ھونے کے مابین کی تکرار ہے۔ ایک حالیہ مہاجر کے طور پر، میں نے اس ملک میں آنے کے پہلے چند سال کے دوران شدید جدوجہد کی: زبان سیکھنا، گریجویٹ اسکول پاس کرنا، اپنی ذاتی زندگی کے نشیب وفراز کا سامنا کرنا، اور اس سب کے ساتھ ساتھ خود ہی کے لیے جاگنے والے حسد، استحکام، ترس اور مصائب کو پسٍ پشت ڈال کر اپنے آپ کو کلائنٹ کے مسائل پر متوجہ رکھنا۔ امپوسچر سنڈروم (impostor syndrome) کا ذکر کیجیے۔

ایک اور جدوجہد انگریزی زبان کے مختلف “انداز” سے مسلسل موافقت حاصل کرنا ہے. مینہیٹن کی مشرقی طرف ایک ہسپتال میں انٹرنشپ کے دوران ، میں نے ٹریننگ کے تین مرحلے پاس کیے: چار مہینے نوعمر آؤٹ پیثنٹ کلینک میں،چار مہینے ایچ آئی وی کلینک میں، اور چار مہینے نفسیاتی کلائنٹ کے وارڈ میں ۔ مجھے جلد ہی احساس ہوگیا کہ مجھے میری پوری زندگی ایک ہی طرح کی انگریزی زبان سکھائی گئی ہے: “مناسب”، یورو امریکی، درمیانی طبقےکی تعلیم مفید انگریزی زبان۔ یہ عمومی زبان ہسپتال میں میرے کام کے لیے نہایت غیر مناسب تھا۔ میرے مریضوں کی وسیع تعداد کا تعلق سفید پوش اور مفلس طبقے سے تھا۔ میرے مریضوں میں بے گھر افراد، سابق قیدی، اور سابق جنسی کارکن بھی شامل تھے۔ میرے مریضوں کا تعلق کئی طرح کے نسلی پسٍ منظر اور ممالک سے تھا۔ ایفرو امریکی، ہسپینک، ایشین، یورو امریکی، ایک سے زیادہ نسلوں سے تعلق رکھنے والے، حالیہ مہاجرین، اور مہاجرین کی دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے ۔۔۔۔ میرے کلائنٹ بہت متنوع تھے اور سب مختلف “زبانیں” بولتے تھے۔

جیسے کہ، منشیات سے بحالی کے گروپ میں، میرے کلائنٹ ایک دوسرے کو مختلف جیلوں کے مقامات کے نام سے بلاتے تھے، اور ان کو ایک دوسرے کی با آسانی سمجھ بھی آجاتی تھی۔ ایک طرح سے، میں ان کی رہنمائی کرتے ہوئے بالکل بے وقوف معلوم ھوتی تھی۔اپنے سے دگنی عمر کے ھوشیار لوگوں کے ساتھ کام کرکے، مجھے اپنا آپ نہایت بھولا اور ناسمجھ محسوس ھونے لگا۔ بہت سا وقت میں بس وہاں بیٹھ کر ان سے زندگی کے ایسے تجربات ۱ور مسائل و مصائب کے بارے میں سیکھتی تھی جو میرے وہم و گمان سے بھی بالاتر تھے۔ یوں تو یہ سب تجربات دل دہلا دینے والے تھے، مگر پھر بھی میرے کلائنٹ مجھے میری بول چال میں جملوں کی حسین ادائیگی اور قواعدی درستگی کی کمی کے باوجود کبھی برطرف نہ کرتے تھے۔ بلکہ اکثر کلائنٹ میرے ساتھ نہایت فراغ دلی اور صبر سے پیش آتے تھے۔

ایک دفعہ ایک چالیس سالہ آدمی نے مجھ سے کہا کہ،”من، مجھے تمہارے ساتھ کام کرکے بہت خوشی ہوتی ہے۔ اس کام کی ابتدا میں ھونے کے باوجود بھی تم نہایت متجسس، پرجوش، اور بہت پرخلوص ہو۔” ایک اور مرتبہ، ایک یورو امریکی خاتون نے ہمارے ایک سال اکٹھے کام کرنے کے بعد میرا شکریہ ادا کرتے ھوے کہا کہ میں ایک باصلاحیت تھراپسٹ ھوں۔ اور ایک دفعہ میں نے ایک چینی ماں بیٹی کی گنڈاگردی (bullying) اوراس کے متعلق اسکول کے انکار اور غفلت کے سلسلے میں مدد کی.مجھے آج بھی اس ماں کے چہرے کی پر نور خوشی یاد ہے جب انہیں معلوم ہوا تھا کہ میں انہی کی مادری زبان بولتی ہوں۔ یہاں تک کہ میرے وہ مریض بھی جو منشیات کے استعمال سے بحال ھورہے تھے، جن سے میں کچھ خوف زدہ بھی تھی، وہ بھی مجھے بہت گرم جوشی کے ساتھ سکون و سلامتی کی اجتمائی دعاوں میں مدعو کرتے تھے، کیونکہ وہ بتا سکتے تھے کہ میں قدرے نا تجربہ کار اور گھبرائی ہوئی تھی۔ بے شک، میرے کلائنٹ میرا اعتبار تب بھی کرتے تھے جب مجھے خود بھی اپنے آپ پر اعتبار نہ تھا۔ میرے کلائنٹ نے مجھے تب ایک قابل تھراپسٹ سمجھا جب میں خود بھی اپنے آپ کو ایک قابل تھراپسٹ نہ سمجھتی تھی۔

جیسے وقت گزرتا گیا، میں رفتہ رفتہ وجدانی طور پر مریضوں کے نظریے سے اپنی صلاحیتوں اور خصوصیات کو سمجھتی گئ ۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ ایک غیر مقامی تھراپسٹ ہونے کی بدولت میری جو “خامیاں” تھیں وہ دراصل میرے لئے بھترین تحائف تھے، بس اگر میں ان کو ذرا الگ زاویے سے دیکھوں۔

حالانکہ مجھے اپنے کلائنٹ کے مذاق یا ثقافتی حوالہ جات کی فوری طور پر ہمیشہ سمجھ نہیں آتی تھی، پھر بھی میں ہمیشہ عاجز، مستند، اور متجسس تھی۔ ایک بار، ایک افریقی امریکی آدمی نے مجھے بتایا کہ وہ کاسبی شو( “Cosby Show”) دیکھتے ہوئے بڑا ہوا. اس نے بتایا کہ اسے ہمیشہ کوسبی جیسا خاندان چاہیے تھی۔ اس شو کے متن اور شہرت سے لاعلم، میں یہ نھیں سمجھ پا رہی تھی کہ اس کی ویسے خاندان سے کیا مراد تھی۔ میں نے اس سے اس شو کے بارے میں پوچھا حالانکہ یہ میری غیر ملکی حیثیت اور لاعلمی کو ظاہرکرتا تھا۔جیسے جیسے اس نے مجھے شو کی تفصیلات بتائیں، ویسے ویسے ہم دونوں کو اس کے تجربات اور خواہشات کے بارے میں مزید باتیں پتا چلیں۔ جب آپ ایک الگ ماحول اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے تھراپسٹ ہوتے ہیں تو آپ اپنے کلائنٹ سے روز کچھ نیا سیکھتے ہیں۔ ایک سادہ تبادلے میں، کلائنٹ فوری طور پر استاد بن جاتا ہے، اوراس سے اس مقام کا ماحول ھی بدل جاتا ھے.

اسی طرح، ایک حالیہ مہاجر کے طور پر جس نے خود بھی ہجرت کی مشکلات کا سامنا کیا ہے، میں ان لوگوں کی طرف خاص طور پر حساس ہوں جو تنہائی، پسماندگی، یا زندگی کے کٹھن مرحلات کے ساتھ جدوجہد کررہے ہیں.
میں گہرائی سے سمجھتی ہوں کہ جدوجہد کرنے کا کیا مطلب ہے، تب بھی جب آپ تمام میسر سہولیات اور وصائل کا بھترین استعمال کر رہے ہوں۔ یہ سچی شفقت میرے مریضوں کو سکون دیتی ھے اور مجھے مطمئن کرتی ھے۔

آخر میں، میری چینی پرورش اور امریکی تعلیم نے مجھے یہ سکھایا ہے کہ زندگی میں ایک جیسے مسائل کے مختلف حقائق، پہلو اور حل ہوتے ہیں۔ ایک “اجتمای” خاندان مغرب میں منفی طور پر دیکھا جاسکتا ہے، لیکن یہ مشرقی اجتماعی ثقافت میں ایک عمومی بات ہے۔ دنیا پیچیدہ، پاراجاتی، اور ڈائلیکٹیکل ہے اور ہاں، دو متضاد باتیں ایک ہی وقت پر درست بھی ہو سکتی ہیں(مثال کے طور پر، “میں کمزور ہوں اور میں مضبوط ہوں.” ” میں مددگار ہوں اور میں مدد کی منتظر ہوں.”) اس فکری لچک سے مجھے زندگی کے ایسے نشیب وفراز کا سامنا کرنے میں مدد ملتی ہے جن کا اکثر متحد حل نہیں ہوتا۔

ان الفاظ کو لکھتے ہوے، مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں نفسیات کے میدان میں کام کرنے کے لئے بہت خوش قسمت ہوں، جٍس میں ثقافتی نقطہ نظر اور زندگی کے تجربات کی قدر ہے، جس میں آپ کے ذاتی مسائل، ہار اور جیت طبی حکمت میں آپ کے خزانے ثابت ہوتے ہیں، جہاں ابتدائی تھراپست کے لیے بہت سی مدد اور غلطیوں کے لیے بہت سی گنجائش ہوتی ہے۔ ہر پیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ ہر غیر مقامی اسپیکرگریجویٹ کو ایسے مواقع اور سہولیات میسر نہیں ہوتیں۔ ایک فیاضی کاروبار کا حصہ ہونے کے باوجود، ایک غیر مقامی اسپیکر تھراپست کو بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ حقیقی ہوں یا تصورانہ: ثقافتی ہوں، لسانی یا مجموئی۔ بعض اوقات، یہ رکاوٹیں ایک ابتدائی تھراپسٹ کے لیے ظالمانہ اور خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ انتہائی صورتوں میں، میں نےاپنے ساتھی تھراپسٹ کو زبان کے کورس لیتے ہوے یا پروگرام سے دستبردار ہوتے ہوئے دیکھا ہے، اور کافی حد تک اس کی وجہ، اس پروگرام کی بین الاقوامی طلباء کی ضروریات کی طرف بے حسی تھی۔ یہاں تک کہ جب ایک تھراپسٹ اپنی ڈگری حاصل کرتا ہے، اس کی پیشہ ورانہ امکانات اس کی امیگریشن کی حیثیت کے لحاظ سے محدود رہتے ہیں.

بلآخر، حقیقت اور میری نادر امید کے درمیان ایک نازک توازن موجود ہے۔ دس سالوں کی تربیت اور عملی تجربے کے بعد میں نے یہ سیکھا ہے کہ ثقافتی اور لسانی حدود سر کئے جا سکتے ہیں جب تک کہ تھراپسٹ ان کے “نقصانات” کی طرف ایک کشادہ رویہ رکھے اور اپنے مریضوں اور اساتذہ سےسیکھتا رہے۔ آخر آپ کی کمزوریاں آپ کی سب سے بڑی طاقت بھی بن سکتی ہیں۔

(ڈاکٹر من چینگ نے کاونسلنگ سایکولوجی میں پی ایچ ڈی ڈگری ٹیچرز کالج، کولمبیا یونیورسٹی سے حاصل کی. آپ
ایمیرسٹ ماسشوچیٹس کے ایمیرسٹ کالج کاونسلنگ سینٹر میں ماہرٍنفسیات کے طور پر کام کررہی ہیں. آپ امریکہ میں ثقافتی اور کثیر زبانی تھراپسٹ کی بڑھتی ہوئی تعداد میں سے ایک ہیں۔)

Translator’s Note by Malyaka Imran

مٍن کی تحریر کا اردو ترجمہ کرنا ایک مشکل مگر خوش کن تجربہ تھا۔ بعض اوقات اصل تحریر کے پس منظر کے مطابق اردو الفاظ کا انتخاب کرنا مشکل تھا، مگر اس سرگرمی کی بدولت مجھے اپنی مادری زبان کے پیچ و خم کو زیادہ گہرای اور باریک بینی سے سمجھنے کا موقع ملا۔ میں ہر پہلو کو اسی درجے اور شدت سے پیش کرنا چاہتی تھی جس سے وہ اصل تحریر میں بیان ہوا ہے اور میں نے سیکھا کہ دو زبانوں کے بیچ کی کشمکش میں اس توازن کو برقرار رکھنا ایک دشوار مرحلہ ہے۔ من کا اپنی جدوجہد کے متعلق بات کرنا بہت قابلٍ قدر ہے. مجھے ان سے بہت قوت اور حوصلہ حاصل ہوا اور مجھے یقین ہے کہ باقی پڑھنے والوں کو بھی ہوگا۔

Translating Min’s work to Urdu was a challenging and joyful experience. While it was difficult at times to find Urdu words that rightly fit the context of the actual piece, it also helped me explore the intricacies of my mother language more deeply and thoroughly. I was very particular about portraying everything to the same degree and intensity as it is in the original content, but it is indeed very hard to maintain that proportion and balance when you are thinking back and forth between 2 languages. I also really appreciate how Min came ahead and spoke up about her struggles. I derived a lot of strength from them, as I am sure many readers will do too.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *