مجھے ہمیشہ سے وہ کہانی بہت پسند ہے کے کیسے میرے انکل وِلسن نے اپنے نام کا انتحاب کیا۔ اُنہیں امریکا میں چند مہینے رہنے کے بعد ہی انداذہ ہو گیا تھا کے انگریز لوگ “وُو جِن” کبھی نہیں بول سکتے۔ “و” ہمیشہ بہت مُشکل سے نِکلتا ہے اور “چ” اور “ج” کے بیچ کی آواز صحیح طرح نہیں نِکل سکتی تھی۔ کبھی کبھار، انکل اُنکی اِصلاح کرتے اور ہر ایک لفظ اور اُسکی آواز پر زور دیتے۔ اِس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، اور اُنہیں یہ نہیں پتا تھا کے یہ انکی کوشِش میں کمی کی وجہ سے ہو رہا ہے یا انگریزی زبان کی وجہ سے، جِس میں ایسے الفاظ ہیں ہی نہیں جو کورین زبان کے تلفُظ سے مِلتے جُلتے ہوں۔
اُنہیں کسی بھی صورت میں ایک نئے نام کی ضرورت تو تھی۔ ایسا نام جو امریکی ہو، جِس کا تلفُظ آسان ہو اور باقی ناموں کیساتھ اپنے اُستاد کی حاضری شیٹ پر خاموشی سے بیٹھا رہے۔ وہ صِرف نو سال کے تھے اور انگریزی میں ایک جُملہ بھی صحیح طرح نہیں بول سکتے تھے، لیکن اُنہوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
میری امّی کہانی کے اِس حصے کو سب سے اچھا بیان کرتی ہیں: جب وہ ہمیشہ کی طرح ایک دن سکول سے گھر دو میل چل کر آیئں (کیونکہ اُنکے والدین اپنے ڈرائی کلینِنگ کے سٹور میں مصروف تھے اور باقی گھرانوں کیطرح انہیں سکول سے لے نہیں سکتے تھے)، اور وِلسن انکل جوش میں دو کمروں کے اپارٹمیٹ میں گُھس گئے، پھر وہ اُس دراز کیجانِب بڑھے جہاں میرے نانا نانی نے لغت رکھی ہوئی تھی۔ ایسی لغت جس میں یہ بھی بیان کیا ہوتا ہے کے الفاظ کا جملوں میں کیسے اِستعمال کرنا ہے۔ “ٹام کشتی چلاتا ہے”، “سارہ اپنے بالوں میں کنگھی کرتی ہے۔” میرے امّی بتاتی ہیں کے انکل یے لغت پڑھی نہیں، بس اُسے بار بار تب تک کھولا اور بند کیا، جب تک اُنکے پرچے پے ایسا نام نہیں آیا جو اُنکی آنکھ کو بھائے۔
وہ نام وِلسن تھا، اور اِس بات کا کوئی فرق نہیں پرٹا تھا کے جملے میں مِسٹر وِلسن تھا، اور امریکی لوگ کبھی صِرف وِلسن کو پہلے نام کے طور پر استعمال نہیں کرتے۔ اُنہیں”و” سے تھوڑی واقفیئت تھی۔ کیوںکہ “وُو جِن” بھی و سے شروع ہوتا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کے وہ اپنے آپ کو دوبارہ سے دریافت کر رہے ہوں۔
جب میں چھوٹی تھی، مجھے یہ بات بہت مزاخیہ لگتی تھی کے انکل اپنے آپ کو ایک اتنا عام نام دے رہے ہیں جو کے پہلے ناپ کے طور پے استعمال بھی نہیں ہوتا۔ جب میں اور امّی کِرسمس کیلیے لانگ آئلینڈ اُن کے گھر جاتے تھے تو میں امّی سے وہی کہانی سننے کا کہتی۔ “امّی، جب انہیں پتا چلا تو انہوں نے کیا کہا؟ کیا انہوں نے سوچا کے وہ بیوقوف ہیں؟ کیا وہ اس نام کو بدلنا چاہتے تھے؟” میں یہ سوالات پوچھتی، اور آگے سے ہیشہ ایک ہی جواب مِلتا۔
“بیٹا، مجھے یاد نہیں۔ جب ہم اُدھر پہنچینگے تو خود پوچھ لینا۔” لیکن مینے کبھی نہیں پوچھا۔ کیونکے جیسے ہی ہم اُنکے گھر پہنچتے ، میں فوراً اپنے کزنز کیساتھ مِل کر کھیلنا شروع کر دیتی اور اُنکے ابّو اور اُنکے نام کے بارے میں سب بھول جاتی۔
میرے کزنز صرف آدھے کورین ہیں۔ ولسن انکل نے کالج ختم ہونے کے فوراً بعد ‘شینن’ نامی ایک امریکی خاتون سے تئیس سال کی عمر میں شادی کر لی تھی۔ جب میں پچھلی دفا کرسمس کیلیے لانگ آئلینڈ گئی تھی، تب وہ دونوں آپس میں پوری رات جھگڑا کر رہے تھے۔ وہاں پہنچنے سے پہلے امّی نے بتایا تھا کے انکل اور اُنکی بیوی میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئی ہیں، البتّہ امّی نے اِسکی وجہ نہیں بتائی۔ امّی نے صرف یہ کہا “جب تمہاری شادی ہو گی تب تمہیں یہ بات سمجھ میں آئے گی”۔
میں پوری رات اُس وقت کا تصوّر کرتی رہی جب وِلسن انکل اور شینن آنٹی پہلی مرتبہ ملے ہونگے۔ وہ ایک چھوٹے سے بار میں شراب پی رہے ہونگے۔ انکل نے “بڈ لائٹ” لی ہوگی اور آنٹی نے کچھ اچھا لیا ہو گا جیسے “بلو مون”۔ دوسری دفعہ جب وہ مِلے ہونگے، انکل نے آنٹی کو پُر جوش انداذ میں اپنے نام کی کہانی سنائی ہو گی۔ جب وہ اِس کہانی کی پنچ لائن پر پہنچے ہونگے، آنٹی نے ہنستے ہوئے اپنی زلفوں کو پیچھے کر کے اُنکے بازو پر ہاتھ رکھا ہوگا۔ انہوں نے سوچا ہوگا کیا زبردست اور پیاری کہانی ہے۔
میں ہمیشہ اِس بات کا شُکر ادا کرتی ہوں کے کم از کم میرے والدین نے مجھے ایک امریکی نام دیا اور مجھے خود وہ اپنے لیے تلاش نہیں کرنا پڑا۔ “فیتھ یون-جی چُنگ”، میرا کورین نام میرے امریکی نام میں آرام سے چھپ جاتا تھا۔ اور سرکاری دستاویزات کے علاوہ کوئی بھی کونسا اپنا درمیان والا نام اِسمتعمال کرتا ہوگا۔ کچھ لوگوں کا تو درمیان والا نام ہوتا ہی نہیں ہے۔
اِس سب کے باوجود، اِبتدائی سکول میں، جب ایل ایل بین کے بستوں کا دور تھا، مجھے بہت بُرا محسوس ہوتا تھا۔ مجھے ہر حال میں بس چاہئیے تھا، کیونکے میں اپنی دوسری جماعت کی واحد طالِبہ نہیں بننا چاہتی تھی جِسکے پاس ایک بِلکُل نیا بستہ نا ہو۔ مجھے اپنا بستہ بہت پسند تھا، اور میرے نام کے پہلے حروف ایف، اِی، سِی، سفید رنگ میں جامنی نائلون کے اوپر ایسے سِلے ہوئے تھے کے وہ صرف میرے لیے ہی بنے ہوں۔
مجھے میرے نام میں جو ای ہے ، اس کے بارے میں سوالات سے نفرت تھی۔
اے۔آر۔ایم امینڈا روز موریٹی،” میری دوست نے ہر حرف کو ہاتھ لگا کر بتایا ۔ پھر اُسنے فخر سے کہا “روز میری نانی کا نام تھا۔” امینڈا میری سب سے اچھی دوست تھی، اور یہ دوستی تب سے ہے جب ہم ایک سال پہلے، پہلی جماعت میں ایک دوسرے کیساتھ بیٹھے تھے اور مینے اُسے بتایا تھا کے مجھے اُسکے فریکلز پسند ہیں۔ ہم نے ہر جُمعے کی دوپہر کو کھیلنے کی ایک رِوایت بنا لی تھی، اور اس بار ہم اُسکے گھر پر تھے۔
مینے اُس سے کہا “یہ فریکلز بہت اچھے لگ رہے ہیں”، مگر میں اصل میں یہ سوچ رہی تھی کے وہ اُس چیز کے بارے میں پوچھیگی یا نہیں۔ “اچھا خیر”۔
مگر اِس سے پہلے کے میں موضوع تبدیل کر پاتی، امینڈا نے مداخلت کی اور پوچھا “تمہارے نام کے پہلے حرف کا مطلب کیا ہے؟”
مینے اُسے اپنے جامنی بستے اور اُس پر سفید حروف کو پڑھتے ہوئے دیکھا اور سوچھا کے بول دوں کے میرے ن میں اِی کا مطلب ایلیزبتھ ہے۔ مجھے اِس خیال میں تھوڑی شرمِندگی محسوس ہوئی، کگر مجھے یہ نہیں پتا کے یہ کیفیت مجھے امینڈا سے جھوٹ بولنے کے خیال پر تھی یا اپنی امّی کو میرا جھوٹ پکڑنے کے خیال پر تھی۔ میں تھوڑا ہچکِچائی اور بولی “وعدہ کرو کے تُم کِسی کو نہیں بتاؤگی”۔
اُسنے مخلص لہجے میں جواب دیا “کبھی نہیں”۔
“فیتھ یون-جی چُنگ”، مینے بولا، اور کہا کے مجھے پتا ہے میرا درمیان کا نام کافی عجیب ہے کیونکے وہ کورین ہے۔
اُسنے “یون-جی” آہستہ آہستہ دہرایا اور اِس ناپ کی اجنبیت محسوس کی۔ مگر پھر اُسنے کہا “یہ نام اِتنا بُرا بھی نہیں ہے۔ اینا کا درمیانہ نام وارن ہے جو کے ایک لڑکے کا نام ہوتا ہے۔”
جب میں دوسری جماعت میں پہنچی، کورین زبان میرے لیے بھی اجنبی ہوتی جا رہی تھی۔ میرے والدین مجھے بتاتے ہیں کے میں چار سال کی عُمر سے پہلے روانی سے کورین بولتی تھی، مگر مینے جب سکول جانا شروع کیا اور دوستوں سے انگریزی زبان میں بات کرنا شروع کی، میں کورین بھول گئی۔ مجھے اِس بات میں بہت مشکل سے یقین آتا ہے، حالانکے مینے اپنے بچپن کی وِڈیوز دیکھی ہیں۔ وہ کیسیٹ پر ہیں تو ہم نے اب کافی سالوں سے دیکھی نہیں، مگر مجھے تھوڑی تھوڑی یاد ہیں۔ اُسکے اندر میری امّی مجھ سے کورین زبان میں سوال پٔوچھ رہی ہیں۔
وہ جب چھوٹی تھیں، اُنہیں بھی کورین بھول گئی تھی۔ سکول کے زمانے میں اُنکے والدین اُنسے کورین میں سوال کرتے اور وہ آگے سے انگریزی میں جواب دیتیں۔ گریجویشن کی بعد میرے ابّو کیساتھ وہ پہلی مرطبہ کوریا واپس گئیں۔ میرے ابّو نے اُنسے شادی کرنیکی خواہش ظاہر کی تھی اور ابّو کے والدین چاہتے تھے کے آنے والی نسل اپنی زبان میں بات کرے۔ امّی بتاتی ہیں کے کوریا میں چار مہینے رہنا اور اپنی زبان کو کورین کا عادی بنانا کافی مُشکِل تھا۔ اپنے بچّوں کو پریشانی سے بچانی کیلیے وہ ہم سے صرف کورین میں ہی بات کرتی تھیں۔ ہم اُنہیں بچپن میں “اُمّا” کہہ کر بُلاتے تھے۔
وِڈیو میں میں اُنکو روانی سے اُن الفاظ میں جواب دے رہی ہوں جو میں اب خود سمجھ نہیں سکتی۔
میری کافی پُرانی یادوں میں سے مجھے یہ یاد ہے کے میں اپنے گھر والوں کے ساتھ باورچی خانے میں بیٹھ کر اپنے بڑے بھائی اور بہن، وِکٹوریا اور کرِسچن، کو پیٹبِنگسو بناتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔ میری امّی اُنکو آئس شیوّر (جِسکے اوپر پیلے رنگ کا ہاتھی بنا ہوا ہے) لوڈ کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔ میرے دونوں بھائی اُس پر بنے ہاتھی کو سونڈ کیساتھ کھیل رہے ہیں۔
مجھے اِس یاد کے الفاط یاد نہیں، مگر وہ کورین زبان میں تھے۔ لیکن کورین میں برف کو کیا کہتے
ہیں؟ اور ہاتھی کو؟
اب کورین زبان میں جو بھی الفاظ مجھے یاد آتے ہیں وہ یا تو چرچ کے بارے میں ہیں یا کھانے کے بارے میں ہیں۔ چرچ کے چھوٹے سے پادری کو “موکسانِم” کہتے ہیں اور بڑی عُمر کے عورتوں کو “عجوماس” کہتے ہیں۔ خدا کو”حنانِم” اور “یِسونِم” کہتے ہیں۔ جب میری بہن وِکٹوریا کالِج کیلیے جا رہی تھیں، تب اُسنے مجھے بتایا کے انگریزوں کے چرچ جانے کی سب سے بُری بات وہاں کا کھانا تھا۔ وہ بتا رہی تھیں کے وہاں نہ “مندو”، نہ “کیودنچِم”، اور نہ ہی چاول ہوتی ہیں۔ مجھے یقین نہیں آرہا
تھا!
جِس چرچ میں ہم نے ساری عُمر حصہ لیا ہے وہ ایسٹچسٹر کورین سیونتھ ڈے ایڈوینٹسٹ چرچ ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا کے یہ ایک عجیب بات ہے، مگر ایک دِن جماعت والوں نے دوپہر کے کھانے کو دوران مجھ سے کہا “میری امّی نے مجھے بتایا کے تُم اور تُمہاری امّی سیونتھ ڈے ایڈویٹسٹ چرچ
جاتے ہو۔”
مینے بولا،”جی ہاں”۔
“تو کیا تُم کرسچن ہو؟” اُسنے پوچھا۔
“ہاں۔ ہم خدا اور جیسّس پر یقین رکھتے ہیں۔”
“یہ بہت بُری بات ہے۔”
“بلکل نہیں۔”
اُس دن مینے امّی سے پوچھا کے ‘کیا یہ سب کرنا بُری بات ہے؟’
“بِلکل نہیں بیٹا،” میری امّی نے مُسکُراتے ہوئے بولا “ہم خدا کی عبادت کرتے ہیں، کِسی اِنسان کی نہیں۔ ہپ یہودیوں کیطرح سبت پر بھی یقین کرتے ہیں۔”
میں اِس جواب سے مطمئن تو تھی مگر مجھے اِس بات کا غصہ تھا کے اب مجھے اپنے دوستوں کے سامنے اِس بات کی بھی شرمِندگی اُٹھانی پڑیگی۔ مگر مگر مجھے چرچ جانا اچھا لگتا تھا۔ وہاں میں دوسرے کورین-امریکی بچوں سے مِلتی تھی جو میرے ہم عُمر تھے۔ وہ کورین نا بولنے پر ہمارا مزاق اُڑاتے تھے مگر اُنہوں نے ہمیں نئے کھیل بھی سِکھائے۔
جب مینے خدا پر یقین کرنا چھوڑ دیا، مجھے اپنے پہلے نام پر بھی شرمندگی محسوس ہونی لگی۔
جب میں ہائی سکول کے تیسرے سال میں تھی، تب ایک رات میری دوست کی سالگِراہ پر مجھے باہر جانے کی اِجازت مِل گئی۔ مجھے اُس وقت تھوڑی شرمِندگی ہوئی کیونکے مجھے پتا تھا کے میری دوست کے بھائی نے اُس رات کیلیے بییّر اور ووڈکا خریدے ہوئے تھے۔
جب میں وہاں پر پہنچی، تو وہاں پر ایک لڑکے نے مجھے بییّر کا کین دیا اور اپنا تعارُف کرایا۔ میرا نام سُن کر اُسنے کہا فیتھ ۔ “یہ خوبصورت نام ہے۔ آم تھوڑی مذہبی سی ہیں”؟
یہ پہلی مرتبہ نہیں تھا کے کِسی نے یہ پوچھا ہو۔ مجھے یاچ ہے کے جب میں چوتھی جماعت میں تھی اور ہمیں اپنے نام کا مطلب ڈھونڈنا تھا۔ سارے بچوں نے اپنے والدین سے مطلب پوچھا، مگر مجھے پتا تھا کے میرا نام لغت میں موجود ہوگا۔ لغت میں میرے نام کے دو مطلب تھے، پہلا: خدا پر یقین اور دوسرا: کِسی اور چیز پر یقین جِس کے ہونے کا کوئی اور ثبوت موجود نا ہو۔
میں یاد کرنے کی کوشِش کر رہی تھی کے مینے کونسا مطلب لکھا تھا، جب مجھے ایک دم سے اِحساس ہوا کے میں کِتنی اکیلی ہوں۔ پارٹی میں باقی سارے باتیں کر رہے تھے اور مجھے ایسا محسوس ہوا کے میں اپنے عقیدے سے میلوں دور ہوں
ایک دم سے مجھے اِحساس ہوا کے میں سارہ کے باروچی خانے میں ایک اجنبی لڑکے کیساتھ خوش تھی۔ میرے نام کی أصل مطلب کی کوئی حیصیت ہی نہیں تھی کیونکے مینے سیدھا جواب دیا کے میں مذہبی نہیں ہوں مگر میرے گھر والے ہیں۔
ہم نی اُس رات بوسہ نہیں لیا، مگر ہپ دونوں بوسہ لینا چاہتے تھے۔
جب وہ میرے قریب آیا تو مینے ایک دم سے منہ موڑ لیا اور لہا “میں نشے میں ہوں۔” میں اُس وقت صرف اپنے والدین کا سوچ رہی تھی جو مُلازمت سے گھر واپس آ کر سو چُکے تھے۔
Translated by Saad Baloch ’20
It has been a privilege and pleasure to work with this piece. It was challenging to translate because some of the words just do not have an accurate Urdu translation. Translation of words like monogrammed or phrases like “My cousins are half korean” do not do justice to the original piece. So I had to use 2-3 sentences to explain even one phrase so that it can be somewhat closer to the original. With this translation I hope it will reach out to wider audience, and more people will be able to connect with the story presented in this piece.
مترجم کے خیالات:
اِس آرْٹِیکَل پر کام کر کے مجھے بہت خوشی ہوئی. اِس کا ترجمہ کرنا کافی مشکل تھا کیونکہ کچھ الفاظ کا درست ترجمہ کرنا تقریباً نا ممکن ہے. مونوگرام اور باقی کچھ جملوں کا ترجمہ کرنا بہت مشکل تھا تو میں نے ایک لفظ کی جگہ دو تِین جملوں میں اس کا مطلب اردومیں سمجھانے کی کوشش کی ہے.
اِس ترجمے کے ساتھ میں یہ امید کرتا ہوں کے یہ آرْٹِیکَل زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھیں گے اور اِس کہانی اور اِس کے مصنف کی تعریف کریں گے .