پاکستان سے رخصت ہونے کے بعد لکھنے کی کچھ عادت نہیں رہی، لیکن کسی کے گزارش پر اور زبان سے محبت کے باعث، اردوکے موضوع پر اس مضمون کی بنیاد رکھتا ہوں- زبان سے مراد نہ صرف اردو، بلکہ اردو زبان کا روز مرّہ استعمال اور اس کا ادب (نظم و نثر) ہے- مگر میری ادنیٰ راۓ کے مطابق آج یہ مغلیہ زبان مشکلات کا شکار ہے۔ آج کا معاشرہ اردو کے عروج کو بھول بیٹھا ہے۔ اس زبان کی مٹھاس، شائستگی، تہذیب اور ادب و آداب، تمام زوال کا شکار ہیں۔ جس کی نشان دہی آج کے نوجوان ببانگِ دہل کرتے ہیں۔ موتیوں کی سی شکل کے الفاظ، انداز و بیاں کی مہارت ، چنیدہ الفاظ کی شستگی اور مٹھاس ، لب و لہجے کا اتار چڑھاؤ اس زبان کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
اردو میں َبیک وقت جذبات کا تلاطم اور اطمینان و سکون ، نہ صرف زبان کی خوبصورتی کو بڑھاتے ہیں بلکہ قاری پر بھی بھرپور تائثر چھوڑتے ہیں- الفاظ و خیالات کا بہترین چناؤ، مناظر کے تخیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کہیں انقلاب کا موضوع تو کہیں خدا کی دلکش نعمتوں کا ذکر ہے- محاورات، تشبیحات اور دل بہلانے والی مستعارہ بندی اردو کے وجود سے اس طرح جڑے ہیں جیسے مجنوں محبت کی قید سے- اب اقبال ہی پڑھیۓ-
“ غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا، تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں “
آئیۓ، اردو زبان کی تاریخی اور معاشرتی اہمیت کا جائزہ لیں۔ اقبال کا یہ شعر ہمیں انّیسویں صدی کے برِّصغیر پہنچا دیتا ہے جہاں انگریزوں کا راج تھا، جہاں حکمرانوں کی عیاشی اور ہماری غلامی تھی- آزادی کا بیڑا اٹھانے کے لیے اسی زبان کا سحر استعمال کیا گیا جس میں پُر اثر الفاظ، جذباتی اور جوشیلے انداز دلائل کے استعارے اور ماضی کی تشبیحات بہترین انداز میں پیش کی گئیں-یونہی، مفکرِ پاکستان، (سَر) علامہ محمد اقبال نے مسلمانوں کے دلوں میں غلامی کی زنجیروں سے رہائ کی آگ لگا دی۔ ان کے ادب کا درجہ الگ ہے، ان کے جذبات و خیالات کا کوٸ ہم سَر نہیں، نہ ہی ان کے تصوّف کی کوئ برابری کر سکتا ہے۔
اقبال اور مسلمان شاعروں سے پہلے، اردو بادشاہوں کی زبان رہ چکی ہے۔ مغلیہ دور میں اسی زبان نے قانونی حیثیت اختیار کی۔ بادشاہوں کے دربار میں بحث و تقاریر، فیصلوں اور احکامات میں استعمال کی جانی والی زبان بھی اردو ہی تھی۔ مختصراً، جو شان انگریزی زبان کو انگریزوں کی سلطنت میں ملی، وہی عروج اردو زبان کو بھی حاصل ہوا۔
لیکن انگریزوں کی آمد نے یہ سب کچھ بدل دیا۔ نیۓ “کانسٹیوشن” کی بنیاد انگریزی زبان میں رکھی گئ۔ قانون انگریزی زبان میں تبدیل ہو گیا۔ انگریزی اخبار چھپنے لگے، اور حکمرانوں نے اپنی زبان اور ثقافت کو برِّ صغیر کے باشندوں کی زبان اور ثقافت پر ترجیح دی۔ یوں، اردو زبان کے زوال کا سلسلہ شروع ہوا۔ مغلوں کے زوال کے ساتھ یہ سلسلہ طاقت پکڑتا گیا۔ انگریزی جاننے والے اہلِ ہند کو نیۓ حکمرانوں کے درباروں میں اہمیت ملنےلگی۔مگر اس کے ساتھ ساتھ کچھ ستارے، مثلاً حالی، منٹو اور غالب، اپنی انفرادی روشنیاں بکھیرتے رہے۔ مسلمان قوم اور اردو زبان ، دونوں ہی بتد ریج زوال کا شکار رہے۔
کیا حیرت، پھر، کہ آج ہم پاکستانی اردو سے بہتر تو انگریزی زبان بولتے ہیں؟ جب تمام تعلیم ہی انگریزی زبان میں حاصل کی گئ ہو، اور امتحانوں کا انتظام ہی “کیمبریج یونیورسٹی” کی طرف سے کیا جاۓ، اور تمام تاریخ کی پڑھاٸ ہی انگریزوں کے نقطۂ نظر سے کی جاۓ، تو کیا تعجب کہ شکوہ اور جوابِ شکوہ بند الماریوں میں مٹی کھاتے رہیں؟ زوال کی یہ حالت ہے کہ اکثر طلباء تو اردو بحیثیت “دوسری زبان” کا انتخاب کرتے ہیں۔ یوں، یہ اپنی قومی زبان (اور مادری زبان) سے جان چراتے ہوۓ ادب کے چراغ کو بجھا ڈالتے ہیں۔ اور جو طلباء ادب پر دھیان دیتے ہیں فقط اچھے نمبروں کی لالچ میں ایسا کرتے ہیں، اور اردو زبان کو معقول انداز سے، اور اس کے پیچیدہ اور اکثر، مشکل، مصنفوں اور کلام کو سمجھنے اور ان سے سیکھنے سے بھاگتے ہیں۔ اسی لیۓ آج اردو ادب عام نہیں۔ جن گلیوں میں کئ برس پہلے، زبان و ادب کی پڑھاٸ اور کام فخر کی بات تھی، اور جہاں سے اسد اللّہ جیسے دل افروز شاعر نکلے تھے، آج ادب کے حوالے سے سنسان ہیں۔ یہاں تک کہ ادبی محفلیں اور اردو زبان کے فروغ کے لیۓ سجاٸ جانے والے بزم بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
انگریزوں کی حکمرانی، اور نوجوانوں کی انگریزی سے دیوانگی، موجودہ دور میں اردو زبان کی زوال پزیری میں برابری کے شریک ہیں۔ روز مرّہ بولی جانے ولی اردو زبان محض ایک زبان نہیں۔ یہ اردو اور انگریزی زبانوں کا ایک کچومر ہے جس میں ایک جملے کے آدھے الفاظ اردو اور باقی انگریزی کے ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں نہ صرف نوجوان بلکہ بزرگ بھی کارِشریک ہیں۔ یوں، نئی فلموں، ڈراموں،یہاں تک کہ خبروں اور اخباروں میں بھی ایسی ہی مِلی جُلی زبان کا استعمال ہو رہا ہے، مثئلاً “یہ اچھا آئیڈیا ہے”۔ آئیۓ، میرے دوستوں کی گفت و شنید سنئیۓ:
احمد – یار، میں آج جِم گیا۔
حمزا – اچھا، تُو نے وہ کینوباڈی کا سیشن کیا ہو گا نا؟
احمد – نہیں یار، میرے پاس ٹائم کم تھا۔ میں نے ایک اسائنمینٹ کرنی تھی۔
حمزا – اچھا، تمہارے مِڈ ٹرمز ابھی تک چل رہے ہیں؟
احمد – ہاں یار، فرائ ڈے کو کھتم ہوں گے۔
ضرورت اس چیز کی نہیں کہ ہم انّیسویں صدی کے برِّصغیر کی طرف، اور جدید ترقیوں اور سائنس کی کرامات سے منہ پھیرتے ہوۓ، معاشرے کا رخ موڑ لیں اور اپنی مادری زبان سے نگاہیں چرا لیں- ضرورت اس چیز کی ہے کہ ہم سائنس اور معاشرے کی ترقی کے ساتھ ساتھ زبان کی ترقی پر بھی توجہ دیں، اور قوم کی ثقافت کو بھرپور طریقے سے اپنائیں۔ کسی بھی ملک کی ثقافتت اس کی زبان کے بغیر ادھوری ہے۔ اردو پاکستان کا سرمایہ ہے، شناخت ہے، تاریخ ہے۔ لیکن اس کو عروج دلانے کے لیۓ لاضمی امر ہے کہ ہم اپنی زبان سے نگاہیں نہ چرائیں۔ ترقی کا دہرا معیار نہ اپنائیں۔ یہ ذمہ داری نہ صرف بحیثیت طالب علم بلکہ پاکستانی باشندے کی حیثیت سے روز مرّہ زندگی میں شائستہ اردو بول کر بھی ادا کرنی چاہیۓ۔ حکومت کی ذمہ داریوں میں سے ایک اردو زبان کی ترویج و ترقی بھی مقدم ہونی چاہیۓ۔ کیونکہ اپنے ادب اور اپنی زبان کو برقرار رکھنے سے قومیں اپنی شناخت برقرار رکھ سکتی ہیں۔